Logo

جشن ِآزادی

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

جشن ِآزادی

 

 

 

جسم آزاد ہو چکے لیکن

 

ذہن آزاد ہوں تو بات بنے

 

 

 

جناب صدرِ عالی مقام! مہمانانِ ذی احتشام! اور عزیزانِ مکتب!…

 

          تہہ دِل سے تسلیمات عرض کرتا ہوں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ آج ہم جشنِ آزادی منا رہے ہیں۔یہ وہ دِن ہے جب ہمیں اللہ تعالی نے پاکستان کی صورت میں ایک ایسی نعمت سے نوازا تھا جس کا اظہارِ تشکر ہم جیسے بے مروت لوگوں کے بس کی بات نہیں۔بقولِ شاعر:۔

 

؎  خداوندا ہمیں تونے دیا یہ ملک پاکستان

 

مگر اس ملک کو ہم بے مروت کچھ نہ دے پائے

 

میں تو یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جاتاہوں کہ آنے والے دور کا مؤر خ ہمارے بارے میں کیا لکھے گا…؟ کیا وہ یہ لکھے گا کہ ہم نے اللہ کے اِس احسان کو اتنا پامال کیا جتنا ہم کرسکتے تھے…؟ کیا ہمیں بھول گیا ، آگ اور خون کا وہ دریا جسے پار کرکے ہمارے  آباواجداد نے اس مدینہ ِ مقدس کی بنیاد رکھی تھی…؟

 

احبابِ من! …

 

آپ کو ایک عجیب بات بتاتا ہوں۔ ’’چودہ اگست انیس سنتالیس کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا اور انتیس نومبر انیس سو سنتالیس کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ ہے نا حیرت کی بات…؟ سیارہ ِ زمین پر دو ایسے ممالک ایک ساتھ وجود میں آئے جو مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے تھے۔ آج بھی اسرائیل کے سرکاری نام میں ، یہودی ، جمہوریہ اسرائیل اور پاکستان کے سرکاری نام میں اسلامی ، جمہوریہ پاکستان کے الفاظ شامل ہیں۔وہ بھی نظریاتی ملک، یہ بھی نظریاتی ملک۔ وہ بھی انیس سو سنتالیس میں بنا، یہ بھی انیس سو سنتالیس میں بنا۔ لیکن رکیے! ہاں ایک بہت بڑا فرق ہے، دونوں ریاستوں کے وجود میں۔ ہم نے قربانیاں دیں، خون بہایا، گردنیں کٹوائیں، بیٹیوں کے دوپٹے اور بہنوں کی عزتیں تار تار کروائیں، آتش و آہن کے سمندروں کو پار کیا…… جبکہ اسرائیل کے یہودیوں نے اسرائیل کی زمین کو خرید لیا۔ بیچنے والے کون تھے…؟ عرب مسلمان۔ اور خریدنے والے کون تھے…؟ جرمن اور برطانیہ کے یہودی۔

 

خیر! تو حاضرین ِ کرام ! سوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیل ایک ساتھ کیوں وجود میں آئے؟ جواب یہ ہے کہ اسرائیل ، یہود کے بہت پرانے منصوبہ ’’زایان‘‘ کے نتیجے میںوجود میں آیاجس کے تحت عظیم تر اسرائیل کا قیام بھی عمل میں آنا تھا۔ اور پاکستان اقبال کی دوررَس نگاہوں کو نظر آنے والےمسلم امہ کے مستقبل کی وجہ سے۔

 

 

 

صدرِ ذی وقار!…

 

جس طرح فلسطین کے عربوں نے شروع شروع میں یہودکے ہاتھوں اپناملک بیچ دیا تھا ۔ آج ہمارے وطن میں بھی ایسے غدار پیدا ہوچکے ہیں جو دھرتی ماں کے ٹکڑے کرکے اس کو بیچ دینا چاہتے ہیں۔بلوچستان کی علیحدگی کی بات کرنے والوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان مسلم نشاۃ ثانیہ کا مرکز ہے۔ یہ وطن یعنی پاکستان صرف ایک زمین کا ٹکڑا ہی نہیں ہے، یہ وطن ایک نظریہ ہے۔ ایک نظریہ کہ اسلامی اصولوں کے کماحقہُ اطلاق کے لیے ہمیں ایک لیبارٹری چاہیے۔ ایک سرزمین، جہاں بقول اقبال ہم اسلامی اُصولوں میں مزید ترقی یعنی اجتہاد کرسکیں تاکہ نشاۃِ ثانیہ کے درہائے امکان وا ہوں۔

 

 

 

صدرِ مکرم!

 

ہم نے تو خواب دیکھے تھے کہ ہم جئیں گے اور شیروں کی طرح جئیں گے۔ کیونکہ اپنی دھرتی پر جئیں گے۔ لیکن آج ہم دنیا کی رسوا ترین قوم کیوں ہیں…؟ آخر کیوں…؟

 

 

 

صدرِ عالیجا! 

 

دوسرے ملکوں کے لوگ ہمیں’’ تھرڈ ریٹ سٹی زن‘‘ سمجھتے ہیں۔  آخر ہم اتنے بدنام کیوں ہوکر رہ گئے ہیں۔ کوئی ہمیں کہتا ہے کہ ہم غاروں کے زمانے میں چلے گئے ہیں۔ چین ہم سے صرف دو سال پہلے آزاد ہوا تھا لیکن آج چین کو دنیا سپر پاور مانتی ہے۔ آخر انہوں نے ایسا کیا کیا…؟

 

بقول اقبال ؒ :۔

 

گیا دورِ سرمایہ داری گیا

 

تماشا دکھا کے مداری گیا

 

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

 

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

 

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

 

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

 

عزیزانِ من!!…

 

آج کا ہی دن تھا، جب ہمیں ، ہمارے خوابوں کی تعبیر ملی تھی۔جی ہاں ! آج کا ہی دن تھا جب ہم نے اپنے لاکھوں پیاروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا ۔ یہ کیسا ستم ہے۔ گھر کا کوئی ایک فرد اگر دنیا سے چلا جائے تو زندگی محال ہوجاتی ہے، یہاں تو ہم نے آدھی مسلم قوم کو کھو دیا تھا، پھر بھی ہمیں وطنِ عزیز کی قدر نہیں ہوئی…؟

 

افسوس صد افسوس!…کہ ہم دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے اپنے اندر کا مسلمان بھی مرچکا ہے اور پاکستانی بھی۔ اگر کچھ زندہ ہے تو وہ امریکی ہے، سکنڈے نیوین ہے، یورپین ہے۔ لیکن پاکستانی ڈھونڈے سے بھی کہیں نہیں ملتا۔

 

؎  آئے عشاق گئے وعدہِ فردا لے کر

 

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخِ زیبا لیکر

 

 

 

صدر ِ ذی وقار!…

 

علامہ اقبال نے ہندوستان کے ُملّاں کو پاکستان کی اہمیت سمجھانے کے لیے ایک شعر کہا تھا:۔

 

؎  ملاں کو ہے جو ہند میں سجدے کی اجازت

 

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

 

 

 

صدرِ محترم !…

 

میں پوچھتا ہوں، یہاں تو سجدے کی اجازت تک بھی نہیں۔ جی ہاں جنابِ والا!…مسجدوں میں جاکر دیکھ لیں۔ ہر مسجد کے دروازے پر آپ کو پولیس والے کھڑے نظر آئینگے، محض اس لیے کہ مسجد میں ہم حفاظت کے احساس کے ساتھ سجدہ ادا کرلیں۔ دکھ ہوتا ہے ایسی آزادی کو دیکھ کر:

 

میری بات سنیے!…

 

 

 

                    ہم جو آزاد ہیں

 

ایسے آزاد جیسے

 

چھڑی پر پرندہ بٹھا کر

 

اسے پیر سے باندھ دیں

 

اور چھڑی کو ہلا کرکہیں

 

اے پرندے!تو آزاد ہے

 

اس کی پرواز تو

 

جتنی ڈوری ہے اتنی ہی پرواز ہے

 

اور اتنا ہی وہ پنکھ آزاد ہے

 

ہم جو آزاد ہیں

 

جیسے تصویر کے صاف شیشے تلے

 

ہونٹ آزاد ہیں

 

آنکھ آزاد ہے

 

ناک آزاد ہے

 

ہاتھ آزاد ہیں

 

جیسے موٹی کتابوں میں لکھے سبھی لفظ آزاد ہیں

 

جیسے اک شاخ سے دوسری شاخ تک

 

برگ آزاد ہیں، پھول آزاد ہیں

 

جیسے پانی کے تالاب میں مچھلیاں،مینڈکیں

 

 خوب آزاد ہیں

 

 

 

عزیزان ِ من!…

 

پاکستانی ، بنیادی طور پر ایک جفاکش اور بہادر قوم ہیں۔ آج اگر ہم اس قدر برے حال کا شکار ہیں کہ خود سے بھی نظریں نہیں ملا سکتے تو اس کی وجہ کیا ہے…؟ کبھی آپ نے غور کیا…؟ یقین جانیے!ہم نے اپنے ملک کو بیچ دیا ہے۔ ہمارے سارے کے سارے ادارے بک چکے ہیں۔ میری طرف دیکھیے!…میں آپ کو باقاعدہ انگلیوں پر گنواتا ہوں۔

 

ہمارا ڈاک کا سرکاری نظام دنیا بھر میں مشہور تھا۔آج ڈاکخانہ برباد لیکن پرائیویٹ کورئیر سروسز کامیاب جارہی ہیں۔

 

ہمارا محکمہ ٹیلیفون سوفیصد منافع دینے والا ادارہ تھا، آج بھانت بھانت کی پرائیویٹ ٹیلی فون کمپنیاں پاکستانی کنزیومر کی جیبیں دن رات کاٹ رہی ہیں اور ہم بے ہوش ہیں۔

 

 

 

ہمارے سرکاری ہسپتال ، آج کہاں گئے…؟ آج ہرگلی میں ایک پرائیویٹ ہسپتال کیوں ہے…؟ ہمارے سرکاری سکول آج کہاں گئے…؟ آج ہر محلے میں پرائیویٹ سکول کیوں موجود ہیں…؟

 

آج جس محکمے پر انگلی رکھیں ، میں آپ کو ثبوت دونگا کہ آج وہ محکمہ بِک چکا ہے۔ پورا پاکستان بک چکا ہے پاکستانیو!!!!…

 

سب کچھ پرائیویٹ، کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں تھما کر تم توقع کرتے ہوکہ تمہارا ملک پاک سر زمین شاد باد ہوجائے گا…؟ بھول ہے تمہاری!!…بزنس مین کا صرف ایک ہی کام ہوتا ہے۔ کمانا اور بس صر ف اور صرف کمانا۔ اگر اسی طرح پاکستان کے محکمے، صوبے، علاقے، ادارے، دولت، خزانے اور زراعت بکتی رہی تو ایک دن تمہارے پاس ایک رومال جتنی جگہ بھی نہیں بچے گی جسے تم پاکستان کے نام سے پکار سکو۔

 

 

 

آج میرا دل کہہ رہا ہے کہ سب کو بھلا کر اپنے پاکستان کے ساتھ براہ ِ راست خطاب کروں۔ اے وطن کہہ کر پکاروں ، پیارے پاکستان کے گلے لگ لگ کے روؤں اور گا گا کر اس سے کہوں،

 

اے وطن تیری قسم تیرے اجالوں کی قسم

 

تری تاریخ کے تابندہ حوالوں کی قسم

 

ترے شاعر کے درخشندہ خیالوں کی قسم

 

مجھ کو ارواحِ شہیداں کے سوالوں کی قسم

 

مجھ سے جو ہوسکا تیرے لیے کر جانگا

 

تری ناموس پہ حرف آیا تو مرجانگا

 

 

 

والسلام

 

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.