Logo

معاشرے میں بگاڑ کا سبب روشن خیالی ہے

کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

 

معاشرے میں بگاڑ کا سبب روشن خیالی ہے

 

 موسم آیا کیکروں کے پھول پیلے ہوگئے

اور زباں کے ذائقے کڑوے کسیلے ہوگئے

اس نے بس اتنا کہا، دن ڈوب جاتا ہے وہاں

ہم بڑے مغرب زدہ تھے ، بے دلیلے ہوگئے

 

صدرِ عالیجا!اور میرے عزیز ہم مکتب ساتھیو!

          لفظ روشن خیالی کے ظاہری حسن سے کسی کو انکار نہیں ۔ مگر یہ وہ حسین ناگن ہے جس کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا ۔ روشن خیالی ، یعنی دورِ قدیم کی دقیانوسی اور توہم پرستانہ فکر سے نجات ۔ روشن خیالی ، یعنی ایک وسیع تر وژن کی تلاش ، روشن خیالی ، یعنی حقیقی علم و جستجو کی سچی لگن۔ کتنے خوبصورت ہیں یہ سب الفاظ جو اس حسین ناگن کے ماتھے کے جھومر ، ٹیکے، ہاتھوں کے کنگن اور تن کا زیور ہیں۔ لیکن ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔جناب!…

ہم اکیسویں صدی میں اعلیٰ انسانی اقدار سے محرومی ، انسان کی انسان سے دوری، فاصلے، روکھا پن، بے مروتی، بے حسی، لاتعلقی، اجنبیت ، اور ذات کے اندرونی خلا کو کیا نام دینگے، جو اسی روشن خیالی کے تاریک بطن سے نمودار ہونے والے وہ اژدھے ہیں جنہوں نے پوری کی پوری اقوام کو نگلنا شروع کردیا ہے۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے جس میں آس پاس کے لوگ دکھائی نہیں دیتے… ؟ حیرت ہے اس روشنی پر جو دو قدم پر موجود پڑوسی کے گھر کو آنکھوں سے اوجھل کردے۔ یہ کیسی روشن خیالی ہے ، جس نے ایک ہی قافلے کے دو مسافروں کو ایک دوسرے سے میلوں دور کر رکھا ہے:۔

؎  راستے بھر ساتھ میں اک اجنبی بیٹھا رہا

    ہم رہے تنہا کے تنہا ، ہم سفر رکھتے ہوئے

 

جناب ِ والا!

 دورِ حاضر کے جدید علوم کی روشنی اور چکا چوند سے کس ظالم کو انکار ہے۔ مگر یادر کھیے گا!… اس کا شہود و وجود ہماری بنیاد پرستی کی بدولت ممکن ہوا نہ کہ اس نام نہاد…اور تاریک ترین روشن خیالی سے۔ ہماری بنیاد ہی ہماری پہچان اور شناخت ہے۔ پتھر بھی اگر اپنی بنیاد کے ساتھ جڑ کر رہے تو وہ پہاڑ کہلاتا ہے لیکن اگر وہ اپنی بنیاد کو خدا حافظ کہہ دے تو یقین جانیے وہ گلیوں کا کنکر بن کر ہر آنے جانے والے کی ٹھوکروں کا نشانہ بن جاتا ہے۔

؎سرِ منزل مسافر کا تو استقبال ہوتا ہے

   مگر رستے کو کیا ملتا ہے جو پامال ہوتا ہے؟

 

عزیزانِ من!

ایک پتے کے کان میں کسی چالاک ہوا نے کہہ دیا کہ ’’تیری اصل ماں تو جڑ ہے۔ ان شاخوں او رتنے نے تو تم پر مفت کا احسان چڑھا رکھا ہے ’’پتہ شاخ سے ٹوٹا اور جڑ کے قدموں میں آگرا ۔بولا! ’’ماں !!!… دیکھ میں تیرے پاس آگیا ہوں ‘‘ جڑ نے نفرت سے منہ پھیر لیا اور کہا’’بیٹا !… تونے اصول توڑاہے۔ اب جا! حواد ثاتِ زمانہ کا شکار ہوجا! میرے ہاں تیری کوئی جگہ نہیں۔ یہ ہے بنیاد کے ساتھ جڑ کررہنے کی مثال۔ ہم بنیاد پرست ہیں۔ اور ہمیں یہ کہتے ہوئے کہ ’’ہم بنیاد پرست ہیں‘‘ کوئی شرم اور عار نہیں۔ کیونکہ ہم بنیاد سے ٹوٹ کر گلیوں کا کنکر نہیں بننا چاہتے اور نہ ہی حوادثات زمانہ کا شکار ہوجانے والا خزاں رسیدہ پتہ۔

؎  وطن کو چھوڑ کر میں بھی چلا جاتا سمندر پار

مری جڑ ہی مگر زیرِ زمیں ہے، مسئلہ یہ ہے

 

صدرِ محترم!

  میں راہ سے ہٹا ہوا

مقام سے کٹا ہوا

جدیدیت کے تیر سے

جگرفگاردل مرا

چھدا ہوا، پھٹا ہوا

قبا تو ہے سجی ہوئی

نظر گراں غبار ہے

وجود خستہ حال ِ  ما 

شکست کا شکار ہے

اگر جدید روشنی کا مدعا ہے تیرگی

اگرخیال سنگِ یار کی دوا ہے تیرگی

تواِس جدیدیت کے بھوت سے خدا ہمیں بچائے

خداہماری جان اس قدیم جُہل سے چھڑائے

 

عزیزانِ من!

معاشرے کے بگاڑ کا باعث روشن خیالی ہی ہے۔ کیونکہ یہ محض نام کی روشن خیالی ہے۔ فی الحقیقت اس سے زیادہ تاریک خیالات کا ظہور آج تک کرئہ منور پر نہیں ہوا۔ کبھی ہم کہا کرتے تھے :۔

؎   ہر گھر کا سرمایہ ہیں

  بوڑھے ، کمر خمیدہ لوگ

لیکن آج ہمیں اپنے بزرگوں کو اولڈ ہومز میں دھکیلنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے لیکن وقت نہیں ہے۔ اپنے والدین کے لیے وقت نہیں۔ جی ہاں جنابِ والا!… اس نام نہاد روشن خیالی نے ہمیں مادہ پرست بنادیا ہے۔ ہم کولہو کے بیل کی طرح شب و روز ایک ہی کام میں جتے ہوئے ہیں۔ مال ، مال، مال، مال،مال،خدا کی پناہ!…

          جدید دنیا کو ہائیڈل پارک ورلڈ کہا جاتا ہے۔ جہاں ہر انسان کو آزادیٔ رائے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ کسی سے بولنے کا حق چھیننا اس کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور پھر وہ اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے چاہے ، محسنِ انسانیت ، پیغمبرِ اسلام، نبی اقدس،محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ بابرکات میں گستاخانہ کلمات کہہ دے ۔ اسے تو بنیادی انسانی حقوق نے بولنے کی آزادی دی ہے جنابِ والا!…اسے تو اقوامِ متحدہ نے روشن خیال تسلیم کیا ہے، حضورِ والا!…پھر ہم کون ہوتے ہیں اسے اس حق سے محروم کرنے والے…؟ جی ہاں یہ ہے روشن خیالی۔

اور یہ ہے روشن خیالی کہ استاد سکول میں بچوں کو پڑھانے کے لیے آئے تو ادب سے آئے ۔ بچوں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھے۔ خود کھڑا رہے، وہ بیٹھے رہیں۔ خود ڈانٹ کھائے لیکن اُن کے ساتھ پیار سے بات کرے۔ مذہب بُرا ہے، تاریخ جھوٹ ہے، اقدار فضول ہیں، قومی سوچ بکواس ہے، یہ سب کتابی  باتیں ہیں، یعنی یہ روشن خیالی ہے کہ،

؎  مذہب نے سب خون بہایا

اس مذہب کی ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ

گھر پر ہو ابا کا سایہ

اس منصب کی ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ

جس مکتب نے سبق بڑھایا

اس مکتب کی ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ

روشن خیالی نہیں تاریک خیالی کہیے حضورِ والا شان!… کیونکہ اس نے ہمیں معنوی طور پر نابینا کردیا ہے۔ اب ہمیں موبائل ، کمپیوٹر اور ٹی وی کی سکرین کے علاوہ آس پاس کی موجود دنیا میں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ۔ یہ جو روشن خیالی ہے نامرشد!…یہ کالے شیشوں والی وہ عینک ہے،جسے آنکھوں پر چڑھا کر ہم، کمپیوٹر کے ذریعے ، صرف ایک ڈیجیٹل سکرین کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں۔ ہم ’’زومبیز‘‘بن جاتے ہیں۔ مشینوں کے غلام ۔ جی ہاں جنابِ والا!… یہی ’’یوجنا‘‘ بنائی ہے طاغوت نے ہمارے خلاف ۔ ہر شہری کے لیے ایک مشین۔ پھر کیوں نہ میں کہوں کہ:۔

بھاڑ میں جائے ایسی روشن خیالی، جس نے مجھے فطرت سے اتنا دور کردیا ہے کہ میں اپنے شب وروز کی گنتی تک بھول گئی ہوں۔ کبھی جاگیرداری اور شہنشاہی نظام ، سامراج ہوا کرتا تھا۔ آج کا سامراج یہ نام نہاد روشن خیالی ہے۔

والسلام

٭٭٭٭٭

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.