Logo

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

 

جس میں عزت غریبو ں کی پامال ہو

جس میں دہقان کی بے ثمر ڈال ہو

رسمِ ہامان کو ، زعمِ قارون کو

میں نہیں جانتی ، میں نہیں مانتی

جس میں دولت پر ستی کی تعزیر سے

عدل کا سر کٹے جس کی شمشیر سے

ایسے دستور کو ، ایسے قانون کو

میں نہیں جانتی ، میں نہیں مانتی

 

جنابِ صدرِ گرامی قدر !اور شرکائے محفل !

 تسلیمات عرض کرتی ہوں۔

سب سے پہلے ایک لطیف سا نقطہ گوش گزار کرنا چا ہوں گی۔ غریبوں کی حمایت کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا دو الگ الگ موضوعات ہیں۔ یہاں ہمارا موضوعِ گفتگو ہے، ’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘۔

چنانچہ یہ بات ہے، اس للکار کی جو فرعون کے دربار میں موسیٰ کلیم اللہ نے مصر کے مزدوروں کے لیے بلند کی تھی۔ یہ بات ہے اس دستک کی جو نبیِ رحمت ، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یتیم بچے کو اس کا حق دلوانے کے لیے سردارِ مکہ ابوجہل کے دروازے پر دی تھی۔ یہ ذکر ہے اس سر فروشی کا جو حسین بن منصورحلّاج کے فلسفہ و فکر کی جان ہے۔

؎  اُٹھے گا انالحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

   اور راج کرے گی خلق خدا جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

یہ تذکرہ ہے اس جدو جہد کا جو انقلاب ِ فتحِ مکہ سے لے کر انقلابِ چین تک بکھری پڑی ہے۔ یہ وہ انقلابات ہیں جوانسانی عظمت کا پرچم سربلند کیے واردہوئے اورسامراج کے ایوانوں میں زلزلے برپا کردیے۔انقلابِ چین پر ہی اقبال نے کہا تھا،

 

 گیا دورِ سرمایہ داری گیا

  تماشا دکھا کے مداری گیا

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے

 

عزیزانِ من!

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے غریبوں کی حمایت کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:۔

’’وَنُرِیْدُ اَ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ السْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ نَجْعَلَھُمْ اَئِمَہْ وَنَجْعَلَھُمُ الوَارِثِیْن‘‘

’’ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے، ان کو زمین کا امام بنادیں۔ انہیں زمین کا وارث بنادیں۔ ‘‘

جب مالکِ ارض و سمٰوات خود غریبوں کی حمایت پر کمر بستہ ہے تو میں کیوں نہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہونے کا ثبوت دوں؟ میں کیوں نہ غریبو ں کی حمایت کو اپنا شعار بنائوں…؟

جنابِ صدر!

غربیوں کو صرف زکوٰۃ دے دینا ہی کافی نہیں ۔ بلکہ یہ ان کی عزت ِ نفس کی توہین ہے۔ یاد رکھیے!…

؎ لینے سے تاج و تخت ملتا ہے

  مانگے سے بھیگ بھی نہیں ملتی

یہی کافی نہیں کہ ہم ان کے لیے سیمینار منعقد کرکے ان کی غربت اور افلاس پر اپنی سیاسی دکانیں چمکائیں، اور مگر مجھ کے آنسو بہائیں۔ جی ہاں! جنابِ والا! …یہ کافی نہیں۔

؎  چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں

  تہمت ِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابہ جولاں چلو!

دشت افشاں چلو!

مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو!

خوں بداماں چلو!

راہ تکتا ہے سب، شہرِ جاناں چلو!

حاکمِ شہر بھی

مجمعِ عام بھی

تیرِ الزام بھی

سنگِ دشنام بھی

صبح ناشاد بھی

روزِ ناکام بھی

ان کا دمساز اپنے سوا کون ہے؟

شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے؟

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے؟

رخت ِ دل باندھ لو!

دل فگارو ! چلو!

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو!

 

عزیزانِ من!

ہماری نہ جانے کتنی نسلیں گزشتہ پینسٹھ برس سے یہ دعا مانگتی چلی آرہی ہیں:۔

؎  ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

لیکن ہمارے دیس میں غریب، ہر گزرنے والے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ بے آسرا ہوتے جارہے ہیں۔ کیوں؟.....کیونکہ:۔

؎  غریبوں کو نہیں پالا ، حواری پال رکھے ہیں

     امیرِ شہر نے کتے شکاری پال رکھے ہیں

تو پھر غریب کی حمایت کون کریگا…؟کون بیان کرے گا سچائی…؟ کون کھولے گا آنکھیں…؟جب سارے رہبر لٹیرے اور سارے حکمران چور بن جائیں تو غریب کو خود اپنی حمایت کے لیے اٹھنا پڑتا ہے۔ اور وہ سرمایہ داروں کو للکار کر کہتے ہیں:۔

 

؎   ا ب کے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لینگے

پھولوں کو تقسیم کریں گے ، کانٹوں کو تقسیم کرینگے

 

صدرِ عالیجا!

جب میں ناداروں کے بے سہارا معصوم چہرے دیکھتی ہوں تو میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بھوکے زرد گدا گر بچے دیکھ کر میرے حلق میں لقمے پھنس جاتے ہیں۔ وہ پیلے چہرے جنہیں سرخ ہونا چاہیے تھا اور وہ سفید ہاتھ جو پیلے ہونے کے انتظار میں کسی مرجھائے ہوئے پھول کی طرح سوکھ جاتے ہیں۔ وہ حزن و ملال کا شکار باپ جو اپنے بچوں کے لیے آج بھی کھانے کو کچھ نہیں لاسکا ۔ وہ پاک دامن دوشیزہ جو اپنے یتیم بھائی ، بہنوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی عزت شیطانوں کے ہاتھ فروخت کردینے پر مجبور ہوگئی۔ ہائے ہائے ہائے…میں کیسے دیکھوں یہ سب… ؟

؎  ا نگنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم

   ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے

   جابہ جا بکتے ہوئے کو چہ و بازار میں جسم

   خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

   لوٹ جاتی اُدھر کو بھی نظر کیا کیجیے!

 

اے اللہ ! اے میرے مالک ! اے میرے پروردگار!…تو مجھے اس قابل بنادے کہ میں مظلوموں کے کام آئوں ، معصوموں اور مجبوروں کا سہارا بنوں۔ غریبوں کی کماحقہ حمایت کرسکوں۔ وہ غریب جو گودڑی میں لعل ہوتے ہیں، جو بغیر کچھ کہے بھی بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ جن کی آنکھیں بولتی اور اپنے وقت کے قارونوں سے مخاطب ہوکر کہتی ہیں:۔

؎  مری غربت نے مرے فن کا اڑیا ہے مذاق

     تری دولت نے ترے عیب چھپا رکھے ہیں

 

٭٭٭٭٭٭

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.