Logo

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

 


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا

 

 زندگی سے ہر وسیلہ دور ہوجاتا ہے جب

دھیرے دھیرے شیشیہء دل چور ہوجاتا ہے جب

پیٹھ پر بارِ گراں ، ہرہر قدم مشکل محاذ

صبرِ پیہم ، عمر کا دستور ہوجاتا ہے جب

جسم، برزورِ تجلی طور ہوجاتا ہے پھر

آدمی آفاق میں مشہور ہوجاتا ہے پھر

جنابِ صدراور شرکائے محفل!

دنیا کا کوئی ایک بھی بڑا نام ایسا نہیں ، جس کی شوکتِ دائمی کے پیچھے مشقتِ دائمی کا ہاتھ نہ ہو۔ جس نے تگ و دو نہ کی ہو۔ جو دنیا کی بھٹی میں جل جل کر کندن نہ بناہو۔ جس نے حوادثات زمانہ کے تھپیڑے سہہ سہہ کر خود کو ایک توانا درخت نہ بنایا ہو....

بقول شخصے:۔

؎ یاد کرتا زمانہ انہیں انسانوں کو

روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو

آج ہمارے سامنے انسانی تہذیب و تمدن کی اتنی شاندار اور عظیم عمارت کھڑی ہے۔ یہ ثمر ہے ان مسلسل محنتوں کا جو عظیم لوگوںنے ہمارے لیے کیں۔ میں صاحبانِ ہمّت کے احسانات نہیں بھلا سکتی۔ میری آنکھوں کے سامنے ، میدانِ حکمت کے جفاکشوں کی تصویریںہے۔ یونان کے’’ سقراط ‘‘سے لے کر ہندوستان کے ’’علامہ اقبال ‘‘ؒ تک ۔ میری آنکھوں کے سامنے انسانیت کے محسنوں کے نقوش ہیں، آدم علیہ السلام سے لے کر نبی  ِآخر الزماں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک۔ میرے سامنے سائنسدانوں کی انتھک مشقتوں کی اثمارہیں۔’’ ارشمیدس‘‘ سے لے کر ’’سٹیفن ہاکنگ‘‘ تک۔ میرے سامنے محافظینِ ملت کی کہانیاں ہیں،’’ سلطان نور الدین زنگیؒ‘‘ سے لے کر پاکستان کے نشانِ حیدر لینے والے شہدا تک۔ میری آنکھوں کے سامنے جھلمل کرتے سارے مناظر ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیا ںاذیت میں کاٹ لیں اور انسانیت کے لیے اچھے کام کر گئے، عظیم لوگ تھے،

بقول ساغر صدیقی:۔

؎ زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

 

جی ہاں ! عزیزانِ من!

 نامی گرامی لوگوں کی زندگیاں جبرِ مسلسل میں ہی کٹتی ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا اور حسین نام کس کا ہوگا؟… کیا کسی کا ہوسکتا ہے؟… نہیں نا؟…آپؐ چاہتے تومالک ارض وسماوات اُحدکے پہاڑ کو آپؐ کے لیے سونے کا بنادیتا۔ آپؐ نے پتھر ڈھوئے، مزدوریاں کیں، فاقے کاٹے، پرانے جوتے اور پیوند لگے کپڑے پہنے، اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو دفنایا، دکھ جھیلے، مصیبتیں اٹھائیں…دنیا والو!!!… وہ کون سا ستم کا پہاڑ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں توڑا گیا ۔ اور آج آپ دیکھ لیںدنیا میں سب سے اونچا اور سب سے بڑا نام میرے آقا محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ تو پھر میں کیوں نہ کہوں کہ’’نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا‘‘۔

میرے مہربان دوستو! یاد رکھو!……اگر تم چاہتے ہو کہ نامی بنو!… اگر تم چاہتے ہو کہ تاریخ تمہیں اچھے الفاظ سے یاد کرے۔ اگر تم عظیم انسان بننا چاہتے ہو تو تمہیں محنت کرنا ہوگی۔ حرکت میں برکت ہوتی ہے، کاہلی ، سستی، خیالی پلائو، اونچے قلعے ، عالص اور بے عملی، لعنت الٰہی کی مختلف اشکال ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کسی کو اپنی لعنت کا مستحق بنادیتا ہے تو اس سے تعمیرِ دنیا کے کام لینا بند کر کے آرام دہ زندگی عطا کر دیتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب شاعر یوں کہتا تھا،

  ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچا ترا مکان ہے کچھ تو خیال کر

اور جب زندگی میں سہولیات آجائیں تو احساسات بھی بدل جاتے ہیں،

؎  اتنے سکوں کے دن کبھی دیکھے نہ تھے فرازؔ

آسودگی نے مجھ کو پریشان کردیا

 

جنابِ صدر!

 سوال یہ ہے ہماری نسل کیا کریگی؟…یا ہماری نسل کچھ کرکے دکھائے گی؟… سچ کہا کسی نے :۔

؎  رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد

سُر خرو ہوتا ہے انساں ، ٹھوکریں کھانے کے بعد

 

جنابِ صدر!

 میں کہتی ہوں۔ ہمّت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟

مشقت ہی تو ہے

 ہر کامیابی کا اکیلا راز

 ہر عظمت کی کنجی

 جو بھی ہے نامی، گرامی

 اس نے محنت کرکے پایا ہے

 مشقت کرکے پایا ہے

 کسی نے بھوک کاٹی ہے

 کسی نے ہاتھ کٹوائے

 کبھی ہم ان بڑے لوگوں کی بیتی زندگی دیکھیں

تو لگتا ہے کہ وہ جیتے نہیں تھے

 بلکہ ہرپل اِک عذاب ِ مستقل سہتے تھے

 ہرپل جی کے مرتے ، مرکے جیتے تھے

کہ جیسے آتشِ نمرود ہو

 اور اپنے اپنے وقت کے مردانِ ہمّت

 اس میں جل کے اور کندن بن کے نکلے ہوں

 

جنابِ صدر !

 محنت کرنا پڑتی ہے۔’’ دنیا میں جو آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا … جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا‘‘۔محنت ، مشقت ، ہمت، استقلال، استقامت، جرأت ، اور مسلسل لگن میں عظمت ہے ۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے:۔

’’الکا سبُ حبیب اللہ…مشقت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے‘‘۔

معاشرےکی آنکھوں نے دیکھا ہے ان لوگوں کو، بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہوئے ،جو کہا کرتے تھے:۔

؎  میں کیسے بھول جائوں اس کے بڑھاپے کی محنت کو

مرے مزدور بابا نے مجھے مشکل سے پالا ہے

اور آسمان کی آنکھوں نے دیکھا ہے ان نامراد لوگوں کو ،مٹی کی خوراک بنتے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹتے ہوئے ۔جنہوں نے کوتاہ ہمتی کو اپنا شیوہ بنالیا اور شاعر کو کہنا پڑا،

؎ شہر میں جاکر پڑھنے والے بھول گئے

کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

عزیزانِ من!

 ہم اپنے اس عنوان کو اگر مذہبی تعلیمات کی روشنی میں نہ بھی دیکھیں تو بھی ہمارے سامنے سائنسی اور تاریخی دلائل کا انبار ہے۔ ’’رائٹ برادران‘‘ جنہوں نے ہوائی جہاز ایجاد کیا۔ سائیکلوں کو پنکچر لگانے والے مزدور تھے۔ ’’سپائی نو زا‘‘عظیم فلسفی، عینکوں کے شیشے رگڑتاتھا ۔ ’’ابراہم لنکن ‘‘دہقان تھا ۔ ’’کارل مارکس‘‘ فٹ پاتھوں پر سوتا تھا

یہ ارتقاء کا قانون ہے۔ تمکن فی الارض صرف اسی کو نصیب ہوتا ہے ، جو مشقت کرتا ہے۔ باقی سب فنا ہوجاتے ہیں، لیکن وہ باقی رہتا ہے۔ یہ سائنس کی بات ہے۔ آرکیالوجی اینتھروپولوجی اور بیالوجی کی بات ہے ۔

جنابِ والا!

آج قوم کو بے عملی کا درس دینے والے ہمیں مفلوج کررہے ہیں۔ ہمیں افیون پلایا جارہا ہے۔ ہمارے بچوں کو ورد، وظیفے رٹوائے جارہے ہیںتاکہ وہ امتحان میں محنت کی بجائے دم، تعویذ مناجات کے ذریعے پاس ہوں؟… آج ہمارے ٹیلیویژن ہمیں ہمّت ، محنت اور مشقت کا سبق دینے کی بجائے…بے عملی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ تاکہ ہم پندرھویں صدی کے عیسائیوں کی طرح تبرکاتِ مقدسہ خرید کر اپنے گھروں میں برکت لے آئیں اور نجات پاجائیں؟… آج ہمارے مذہبی پیشوا ہمارے لیے اس طرح کی دعائیں مانگتے ہیں:۔

؎ پڑیں کفار کی توپوں میں کیڑے

گرادے آسماں سے ان پہ پتھر

دکانوں میں ہمیں دے خیرو برکت

جہاں پر ہر سہولت ہو وہ دے گھر

بنا ہم کو نمازی پانچ وقتی

عطا کر زندگی میں حجِ اکبر

میں کوئی کام کرسکتا نہیں ہوں

مرے مولا مرے سب کام تو کر

 

جنابِ صدر !

سارے کام خدا پر چھوڑ دینے کا درس خدائے پاک نے نہیں دیا۔ قرآن کریم میں مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کرنے والوں کو جگہ جگہ خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو …ثُمَّ السْتَقَامُوْا…کہہ کر پکا را گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہونگے ، قیامت کے دن جن کی پیشانیوں سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہونگی ، سیماھم فی وجوھہم ۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں صعوبتیں برداشت کیں، لیکن اپنے فرائض میں کبھی کوتاہی نہ کی۔

اور جانے سے پہلے:۔

؎  عظیم لوگوں کی عظمتوں کو سلام کہہ دوں

مشقتوں کو صعوبتوں کو سلام کہہ دوں

وہ جیت جاتے ہیں زندگانی کے کربلا میں

میں آدمیت کے محسنوں کو سلام کہہ دوں

 

والسلام

 

 

٭٭٭٭٭٭٭


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد


کتاب: اٹھو کہ وقت قیام آیا
مصنف: جناب ادریس آزاد

 

Website Version 4.0 | Copyright © 2009-2016 International Iqbal Society (formerly DISNA). All rights reserved.