اقبال اور تقلید -ایک تحقیقی جائزہ (از) سالک بلال
- Parent Category: Papers, articles and columns on Iqbaliyat
- Hits: 2891
جہاں تک لفظ تقلید کا تعلق ہے یہ لفظ قَلَدَ باب نَصَرَسے مشتق ہے لغت میں اس کے ہم معنیٰ الفاظ رفق ،لواہ یا الحبل آئے ہیں اور عربی یہ میں لفظ مختلف طرق سے استعمال ہوتا ہے ۔مثلاً عربی میں کہا جاتا ہے ’’قلد البعیر‘‘ یعنی اونٹ کی گردن میں کھینچنے کے لئے پٹا ڈالنا،اسی طرح ’’قلدہٗ فی کذا ‘‘یعنی اس نے اس کی فلاں بات میں بغیر غور و فکر کے پیروی کی یا کہا جاتا ہے’’ قلدہٗ فیما یقول او یفعل من غیرِ حجۃوَّلا دلیل ‘‘ اس نے اس کے قول و عمل پر بغیر کسی دلیل اور حجت کے عمل کیا ۔اگر ہم صرف لغوی معنوں کی رو سے ہی دیکھیں تو تقلید کرنے کے دو ہی وجوہ ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ مُقَلَّدیعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے فہم ،دیانت ،تقویٰ ،تدین غرض ہر اعتبار سے اتنا قوی ہے کہ مُقَلِّدْیعنی تقلید کرنے والے کو اس پر عقلی اور نقلی اعتبار سے اعتماد کرنے کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں لہٰذا وہ یعنی مقَلِّدْ دیانتاًاس کی بات کو ماننااور اس کی پیروی کرنا اپنے اوپر واجب اور ضروری سمجھتاہے ۔اس قسم کی تقلید شرعاً جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے ۔دوسری وجہ جہالت پر مبنی ہو سکتی ہے کہ مقلِّدْ یعنی تقلید کرنے والے کو مقلَّد یعنی جس کی تقلید کی جاتی ہے سے کسی بنا پر اتنا والہانہ عشق ہوا ہے کہ وہ اس کی ہربات کو چاہئے یا وہ حق ہویا نا حق اس کے ساتھ صرف قائم شدہ تعلق کی بنیاد پرحق جانتاہے یہ تقلید شرعی اعتبار سے ممنوع ہے ۔شریعت کی اصطلاح میں تقلید اول الذکر (پہلے ذکر کیا گیا )معنی میں مستعمل ہے ۔کیونکہ اس قسم کی تقلید میں اگر بنظر غائر دیکھا جائے بذات خود اجتہاد کا عنصر داخل ہے کیونکہ مقلِّدْاپنی ذہنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق مقلَّد یعنی جس کی تقلید کرتا ہے کو پرکھتا ہے اور اس کو دیانۃً صواب یعنی حق پر پانے کے بعد ہی اس کے قول یا فعل پر عمل کرتا ہے ۔اس اعتبار سے لفظ تقلید کوئی ممنوع اور معیوب چیز نہیں ۔کیونکہ اس معنی کی روشنی میں کہا جاتا ہے کہ ہماری پوری شریعت کی عمارت تقلید پر ہے ۔اس قسم کی تقلید حضور ﷺ کے زمانے سے شروع ہوئی اور آج تک امت میں کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے ۔ کیونکہ بقول مولانا عبد الماجد دریابادیؒ صاحب ’’تمام صحابہؓ علم و نظر ،واقفیت و معلومات میں ایک دوسرے کے مساوی نہ تھے ۔ممتاز ترین صحابہؓ کے درمیان بھی اس حیثیت سے فر ق مراتب تھا ۔صحاح میں متعدد روایات اس مضمون کی ملتی ہیں کہ فلاں صحابی کو فلاں مسئلے کے متعلق کوئی حکم معلوم نہ تھا ۔انہوں نے اپنے سے عالم تر صحابی سے دریافت کیا اور جواب پانے پر محض ان کے قول پر عمل شروع کردیا ۔بغیر ا س تحقیق و تفتیش کے کہ اس جواب کا مبنیٰ و ماخذ کیا ہے اور عہد تابعین میں اس کی مثالیں اور بھی کثرت سے ملتی ہیں ،کہ تابعی نے محض کسی صحابی کے قول کو سند قرار دے دیا ہے۔۔ظاہر ہے صحابی کا قول بجائے خود حجت نہیں ہو سکتا ،نہ دوسرے صحابی کے لئے،نہ تابعی کے لئے اور جب کبھی بھی تسلیم کیا جائے تو اس حسن ظن اور اسی اعتماد کی بنیاد پر کہ اس قول کا پیش کرنے والا ،صاحب دیانت اور کتاب و سنت کا علم رکھنے والا ہے ۔ اس اعتماد اور حسن ظن کے بغیر دنیا کے علوم وفنون کے کسی شعبہ میں بھی چارہ نہیں ۔اس سے کسی طبقۂ انسان کو مفر نہیں ‘‘ ۔اصطلاح میں اسی فطری اور ناگزیر صورت یعنی بِلا مطالبہ دلیل ، اعتماد اور حسن ظن کی بنیاد پر کسی عالم متدین کے قول کو مان لینے کا نام ’’تقلید ‘‘ ہے ۔ اس حسن طن اور اعتماد کے ساتھ جب اختلاف یعنی بعد میں آنے والے اپنے اسلاف یعنی اپنے سے پہلے بزرگوں کے قول کو بحیثیت وارث کے قبول کرتے ہیں عربی میں اس کی تعریف یوں بنتی ہے العادات المتوارثہ التی یقلد الخلف السلف یعنی وہ موروثی عادات جن میں تقلید کرتے ہیں خلف اپنے سلف کی ۔لفظِ تقلید ’’التقالید‘‘کا مفرد ہے ۔انگریزی میں اس لفظ کا معنیٰ یوں بنتا ہے:
Uncritical faith in a sources athoritativeness or in adoption of the legal decisions of Islamic law .
اسی حسن ظن اور کامل اعتماد کی بنیاد پر ہم قرآن ،ذخائر احادیث ،آثار صحابہؓ اور قیا س مجتہدین کے وارث ٹھہرے ۔اگر اس قسم کا اعتماد صحابہ نے حضور ﷺ پر نہ کیا ہوتا یعنی حضورﷺ کے ہر قول و فعل کو محض حضورﷺ کے اعتماد پر حق نہ مانا ہوتا تو حضورﷺ کے اقوال افعال بتواتر ہم تک نہ پہنچے ہوتے قرآن اﷲ کی کتاب ہے ابو جہل اور کفار قریش نے اعتماد نہیں کیا انہوں نے انکار کیا لہٰذا کافر ٹھہرے ۔صحابہ حضورﷺ کی صداقت ،دیانت اور امانت سے واقف تھے لہذا انہوں نے ان کی ذات پر اعتماد کیا اور قرآن کو کلام الٰہی یقین کر لیا لہٰذا وہ فرمانبرداروں کی فہرست میں داخل ہو گئے ،حضرت عمرؓ کے زمانے میں جمع قرآن کا سلسلہ شروع ہو امختلف صحابہ کے پاس مختلف آیتیں محفوظ تھیں جمع کرنے والے اصحاب نے حفاظ کی دیانت پر اعتماد کیا اور ان سے ان کی حفظ میں محفوظ آیتوں کو حاصل کر کے مرتب کیا ۔اس طرح ہم موجودہ قرآن کے وارث بنے ۔صحابہ نے حضورﷺ کے خصائل و شمائل کو اپنی زندگیوں میں داخل کیا ۔تابعین نے ان کی تقلید یعنی(Imitation) یہ سمجھ کر کی کہ یہ مقدس نفوس اور ہستیاں ہر گز حضورﷺ کے قول و فعل کی خلاف ورزی اپنی نجی اور عمومی زندگیوں میں کرنے والے نہیں ہیں اس طرح جو عاداتِ حضورﷺبواسطۂ صحابہ کرامؓ منقول ہیں ان پر عمل کرنا امت پر واجب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضرات محدثین کرام ؒ نے شمائل اور خصائل پر درجنوں کتابیں لکھیں ۔مثلاً امام ترمذمی ؒ نے حضورﷺ کے خصائل و شمائل پر شمائل ترمذی کے نام سے ایک کتاب لکھی جو حدیث کے ذخیرے میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے ۔
خیر اس بحث کا ماحصل یہ نکلا کہ تقلید کا وسیع تر مفہوم اخلاف کا اپنے متدین اسلاف کی دیانت ،ذہانت ،امانت اور تفقہ پر مکمل یقین و اعتماد کر کے ان کے ہر قول وعمل کو یہ سمجھ کر لینا کہ یہ ان کی تفہیم و توضیح اور تسہیل و تعمیل اقرب الی لاصل یعنی اصل کے بہت قریب ہے بہ نسبت میری ذاتی تفہیم و توضیح و تسہیل و تعمیل کے ۔ اسی وسیع تر مفہوم میں علامہ مشرق حضرت سر محمد اقبال ؒ تقلید کو لیتے تھے ۔علامہ کے نزدیک اس طرح کی تقلید امت کے لئے از حد ضروری ہے اور اس تقلید کی بدولت امت مختلف قسم کے داخلی اور خارجی فتنوں سے محفوظ رہے گی امت بانت بانت کی بولیوں سے بچے گی اور بقول علامہؒ ’’یک آئین‘‘ بنے گی یعنی تمام مومنوں کے قول و عمل میں کوئی فرق نہیں دکھائی دے گا اور باطل اس یک رنگی کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے گا ۔علامہ ؒ فرماتے ہیں
راہ آبارو کہ ایں جمعیت است* معنی تقلید ضبطِ ملت است
ترجمہ) اپنے بزگوں کی راہ پر چل کیونکہ جمعیت اسی صورت سے حاصل ہو گی ۔تقلید کا مطلب ہے ملت کے اندر ربط و ضبط قائم کرنا ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ علامہ ؒ فرماتے ہیں
نقش بر دل معنی تو حید کن *چارہ کار خود از تقلید کن
اجتہاد اندر زمانِ انحطاط* قوام را بر ہم ہمی پیچد بساط
زجتہاد عالمانِ کم نظر * اقتداء بر رفتگاں محفوظ تر
از یک آئینی مسلمان زندہ است*پیکر ملت ز قرآن زندہ است
ماہمہ خاک ودل آگاہ نیست*اعتصا مش کن زحبل اﷲاو ست
ترجمہ )توحید کا مطلب اپنے دل دل پر نقش کر لے اور تقلید سے اپنے طر زِ عمل کو درست کر لے ۔انحطاط کے زمانے میں اجتہاد کرنا گویا بساط کو لپیٹ دینا ہے ۔عالمان کم نظر (یعنی بصیرت سے تہی دست ) کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی کرنا بہتر ہے ۔کیونکہ مسلمان یک آئینی سے زندہ ہے ۔ہم سب خاک ہیں اور دل آگاہ نہیں ہیں ۔اس قرآن کو مضبوطی سے تھام لے کیونکہ وہ اﷲ کی رسی ہے ۔
مذکورہ بالا اشعار سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت علامہ مشرق ؒ کا بھی تقلید سے متعلق وہی نظریہ تھا جو برصغیر کے کبار علماء کا تھا ۔علامہ ان ہی کا مسلک اپناتے ہوئے اس دور انحطاط میں اجتہاد کی اجازت نہیں دیتے ہیں ۔کیونکہ ’’رای المریض مریض ‘‘یعنی مریض کی رائے بھی مریض ہوتی ہے ۔لہٰذا جب زمانے کی حالت یہ ہے کہ لوگوں کی ہمتیں پست ہو چکی ہیں ،قلوب نفسانی خواہشوں سے پر ہو چکے ہیں اور لوگوں کے قلوب پر نفسانی خواہشات حکمرانی کررہے ہیں تلفیق ۱کو اجتہاد کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے ۔مجتہدانہ صلاحیتوں کے بغیر مجتہدانہ کردار انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہیں ۔محل و مقام اجتہاد کا کوئی لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ان حالات میں اجتہاد سے صرف علامہ ہی نہیں روکتے ہیں بلکہ بر صغیر کے فقید المثال عالم دین حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ جس کو برصغیر کے تمام مکاتب فکر مانتے ہیں بھی روکتے ہیں : ’’ان ھذہ المذاھب الا ربعۃ المدونۃ المحررۃ قد اجتمعت الامۃ او من یعتد بہ منھا علی جواز تقلید ھا الی یومنا ھذا وفی ذالک من المصالح ملا یحفیٰ لا سیما فی ھذہ الایام التی قصرت فیھاالھمم جداواشریت النفوس الھوی و اعجب کل ذی رائی برایہ ‘‘ (حجۃ اﷲ لبالغہ)
(ترجمہ ) ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ مذاہب اربعہ جو مدون ہو چکے اور تحریر میں آچکے ہیں تمام امت یا وہ لوگ جو اس میں قابل اعتبار ہیں اس زمانہ میں ان کی تقلید کے جائز ہونے پر متفق ہیں اور اس تقلید میں بہت سی مصلحتیں ہیں جو مخفی (پوشیدہ) نہیں ہیں خاص کر اس زمانہ میں جس میں لوگ نہایت ہی پست ہمت ہو گئے ہیں اور ان کے قلوب خواہش نفسانی سے پر ہو گئے اور ہر شخص اپنی رائے پر ناز کرنے لگا۔
یہی وجہ ہے کہ علامہ کے نزدیک اجتہاد کے لئے انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے امت کا غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ہو نا ضروری ہے ۔علامہ کے نزدیک جو صلاحتیں اجتہاد کے لئے درکا ر ہیں وہ روبہ زوال ہیں امت ان صلاحیتوں سے انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے محروم ہو چکی ہے ۔علامہ نے اس کا اظہار اس شعر میں کیا ہے
اجتہاد اندر زمانِ انحطاط* قوم را برہم ہمی پیچد بساط
زمانہ انحطاط سے مراد علامہؒ کا اپنا زمانہ ہے ۔کیونکہ علامہ کے زمانہ میں ’’عصر جدید کے مسائل اور اسلامی ارتقاء کے عالم نو کی تحقیق کا مسئلہ ‘‘بڑے زور و شور سے اُٹھا تھا ۔لیکن امت اسلامیہ من حیث الکل عرب تا عجم سیاسی ،سماجی اور علمی اعتبار سے پستی کی شکار ہو چکی تھی تب سے آج تک اس مرض میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو تا چلا جا رہا ہے ۔اس کا علم ہمیں علامہ کی ان سطور سے ہوتا ہے جس کا نقشہ وہ ایک خط بنام اکبر الہ آبادی میں اس طرح کھینچتے ہیں :
’’یہاں لا ہور میں ضروریات اسلامی سے ایک متنفس بھی آگاہ نہیں ۔یہاں انجمن اور کالج اور فکر مناصب کے سوا اور کچھ نہیں ۔پنجاب میں علماء کا پیدا ہونا بند ہو گیا ۔صوفیاء کی دکانیں ہیں مگر وہاں سیرت اسلامی کی متاع نہیں بکتی ‘‘۔(شیخ عطاء اﷲ ۔اقبال نامہ حصہ دوم لاہور شیخ محمد اشرف ،۱۹۵۱ء صفحہ نمبر ۴۸)۔
ان حالات میں جو تحریکیں اور لوگ بشمول علامہ ؒ اُٹھے ان کے نزدیک اجتہادی موشگافیوں سے بڑھ کر اسلامیت کی رہی سہی شکل کو بچانا سب سے اونچا کام تھا ۔کیو نکہ اسی عمارت کی تزئین کی جاتی ہے جس کی بنیاد اور ڈھانچہ مضبوط و موجود ہو جس عمارت کی بنیادیں اور ڈھانچہ ہی خدا نہ خواستہ کسی وجہ سے خستہ ہو چکی ہوں اس کی تزئین پر بنیادیں اور ڈھانچہ ٹھیک کرنے سے پہلے زر کثیر خرچ کرنا عقلی اعتبار سے غیر دانشمندانہ عمل ہے ۔خیر اس انتشاری دور میں علوم اسلامیہ کی طرف امت کا رحجان کم ہوا ۔اسلامی اداروں کی حالت خستہ ہوئی تمام مدارس اسلامیہ حکومتی سر پرستی سے محروم ہو ئے اور امت کا درد رکھنے والے علماء کو ان مدارس کے اخراجات صدقات وز کوٰۃ سے پورے کر نے پڑے تھے ۔امراء اور آسودہ قسم کے لوگوں نے اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کیا جہاں صرف دنیاوی علوم ہی رائج ہوتے تھے اس طرح وہ بچے دینی سرپرستی سے محروم ہو گئے اور ان کے اندر کوئی دینی صلاحیت نہ رہی ۔مدارس اسلامیہ میں صرف اور صرف غرباء اور پسماندہ قسم کے لوگ اپنے بچے ڈالتے تھے ۔یہاں سے ان مدارس میں جدید علوم کا کوئی انتظام امراء کی عدم دلچسپی اور مسلم حکومتوں کی غیر التفاتی کی وجہ سے نہیں رہا لہٰذا وہ جدید مسائل کو سمجھنے سے یکسر قاصر رہے ۔اس طرح جدیدو قدیم علوم کے حامل لوگوں میں کو ئی ربط نہیں رہا دوری دن بہ دن بڑھتی چلی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ ہی دانشوروں کی دانشمندی سے علماء استفادہ کر سکے اور نہ ہی علماء کے علوم سے دانشور مستفید ہو سکے ۔اسی طرح امت من حیث الکل فرزندانِ ملت کی تقسیم شدہ دو صلاحیتوں سے کو ئی منفعت حاصل نہیں کر سکی ۔یہی وجہ ہے کہ علامہ کارِ اجتہاد یا بالفاظ دیگر علامہؒ ’’فقہ اسلامی کی جدید تدوین ‘‘کے لئے دونوں صلاحیتو ں کو جمع کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ کار اجتہاد یا فقہ کی جدید تدوین کے لئے عصر حاضر میں ایک ہی صلاحیت کافی نہیں ہے ۔اس چیز کا اندازہ مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدیر برہان دہلی کی اس عبارت سے ہو تا ہے ۔لکھتے ہیں :
’’دارالعلوم دیوبند میں اختلافات کے باعث جب حضرت الاستاذ(یعنی انور شاہ صاحب کشمیریؒ )نے اپنے عہدہ صدالاستاتذہ سے استعفیٰ دیا اور یہ خبر اخبارات میں چھپی تو اس کے چند روز بعد میں ایک دن ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔فرمانے لگے آپ یا دوسرے مسلمانوں کا جو بھی تاثر ہو میں بہرحال شاہ صاحب کی استعفےٰ کے خبر پڑھ کر بہت خوش ہوا ہوں ۔میں نے بڑے تعجب سے عرض کیا ۔’’کیا آپ کو دارالعلوم دیوبند کے نقصان کا کچھ ملال نہیں ہے ؟‘‘فرمایا کیوں نہیں ؟مگر دارالعلوم دیوبند کو صدرالمدرس اور بھی مل جائیں گے اور یہ جگہ خالی نہ رہے گی ۔لیکن اسلام کے لئے اب جو کام میں شاہ صاحب سے لینا چاہتا ہوں اس کوسوائے شاہ صاحب کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ۔
اس کے بعد انہوں نے اس اجمال کی تفصیل یہ بیان کی کہ آج اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی جدید تدوین ہے جس میں زندگی کے ان سینکڑوں ہزاروں مسائل کا صحیح حل پیش کیا گیا ہو جن کو دنیا کے موجودہ اور بین الاقوامی ،سیاسی ،معاشی اور سماجی احوال و ظروف نے پیدا کر دیا ہے ۔مجھ کو پورا یقین ہے کہ اس کام کو میں اور شاہ صاحب دونوں مل کر کر سکتے ہیں ۔ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی شخص اس وقت عالم اسلام میں نظر نہیں آتا جو اس عظیم الشان ذمہ داری کاحامل ہو سکے ۔پھر فرمایا یہ مسائل کیا ہیں ؟اور ان کا سر چشمہ کہاں ہے ؟میں ایک عرصہ سے ان کا بڑے غور سے مطالعہ کر رہا ہوں ۔یہ سب مسائل میں شاہ صاحب کے سامنے پیش کروں گا اوران کا صحیح اسلامی حل کیا ہے ؟ شاہ صاحب بتائیں گے ۔اس طرح ہم دونوں کے اشتراک سے فقہ جدید کی تدوین عمل میں آجائے گی ‘‘۔چنانچہ با خبر اصحاب کو معلوم ہے اس جذبہ کے ماتحت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے بڑی کوشش کی کہ کس طرح شاہ صاحب دیوبند کی خدمت سے سبکدوش ہونے کے بعد لاہور تشریف لے آئیں اور وہیں مقیم ہو جائیں ۔لیکن افسوس! حالات کچھ اس قسم کے تھے کہ ایسا نہ ہو سکا اور حضرت شاہ صاحب لاہور کے بجائے ڈابھیل تشریف لے گئے ۔جس کا ڈاکٹر صاحب کو واقعی ملال اور صدمہ ہو ا‘‘۔(بحوالہ حیات انور حصہ اول ابن الانور مولانا سید محمد ازہر شاہ قیصرصفحہ نمبر۱۹۲تا ۱۹۳ و اقبال کے ممدوح علماء صفحہ ۱۳۸ از قاضی افضل حق قریشی )
مذکورہ بالا عبارت سے یہ بات معلوم ہو تی ہے کہ علامہ ؒ نے اپنے مجدد یا فقیہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں خود اجتہاد کر کے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالوں گا ۔بلکہ یہ کہا کہ میں نے عصر حاضر کی شبِ تاریک خوب دیکھی اور اس سے جو مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کا مجھے بخوبی علم ہواہے لہٰذا میں ان مسائل کا تفصیلی استفتاء تیار کر کے (شاہ صاحب جو کہ فقیہ ہے کیونکہ اس کو علوم اسلامیہ کے تمام منابع(sources) پرنظر ہے )کے سامنے ڈالوں گا وہ ان علوم کی روشنی میں ان کا شرعی حل بیان کریں گے ۔وہ اپنے آپ کو بحیثیت مستفتی پیش کرتا ہے نہ کہ بحیثیت مفتی اور یہی اس کے بڑے پن کی دلیل ہے ۔وہ منظوم انداز میں اس کا اعتراف اس طرح کرتے ہیں
میں نہ عارف، نہ مجدد،نہ محدث ،نہ فقیہ*مجھ کو معلوم نہیں کیا ہے نبوت کا مقام
ہاں مگر عالم اسلام پہ رکھتا ہوں نظر *فاش ہے مجھ پہ ضمیر فلک نیلی فام
عصر حاضر کی شب تاریکی دیکھی میں نے *یہ حقیقت ہے کہ روشن صفت ماہ تمام (ضرب کلیم)
اگر ہم مولانا انور شاہ صاحب کو قدیم صلاحیت مانتے ہیں تو علامہ کو جدید صلاحیت سے تعبیر کرنا پڑے گا ۔کیونکہ علامہؒ علوم جدید کے تمام منابع سے واقف ہی نہیں بلکہ ان علوم کے تمام طلسمات علامہؒ پر فاش ہو چکے تھے اور وہ اس کے بتوں کو اس طرح توڑنے میں محوہوئے کہ اُن کی تنقید اس طلسماتی تہذیب کے حق میں ضرب کلیم ثابت ہوئی ۔علامہؒ ایک جگہ فرماتے ہیں
طلسم علم حاضر را شکستم*ربودم دانہ و دامش گستم
خدا داند کہ مانند براھیمؑ *بہ نار او چہ بے پروانشستم
(ترجمہ)میں نے عصر حاضر کے طلسمات کو توڑ ا۔میں نے اس کا دانہ اُچک لیا اور اس کے پھنسانے والے جال کو توڑ دیا ۔اے اﷲ ا براھیمؑ کی طرح میں کس طرح اس میں بے پروا بن کر بیٹھا ہوں ۔
اس طرح مولانا انور شاہ صاحب ؒ کا انتخاب اس کار اجتہاد کے لئے علامہ نے یونہی نہیں کیا تھا بلکہ یہ جان کر کہ وہ علوم عقلیہ و نقلیہ کے بحر ذخار ہیں ۔یہ بات علامہؒ ہی نہیں بلکہ انور شاہ صاحبؒ کے ہم عصر چوٹی کے علماء بھی تسلیم کرتے تھے مثلاً مشہور مفسر قرآن شبیر احمد عثمانیؒ نے انور صاحبؒ کے وفات پر ان الفاظ میں ان کا خراج تحسین ادا کیا ’’میں محسوس کر ررہا ہوں کہ حافظ ابن حجرؒ ،شیخ تقی الدین ؒ اور سلطان العلماء کا انتقال آج ہو رہا ہے ‘‘۔اسی طرح سید سلیمان ندوی ؒ نے ان کو ان الفاظ میں یاد کیا ’’دین و دانش کا مہر انور ۳صفر ۱۳۵۲ ھجری مطابق ۲۹؍مئی ۱۹۳۳ء کی صبح کو دیوبند کی خاک میں ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا یعنی مولانا سید انور شاہ صاحبؒ ..........اس کے بعد ان کے علوم پر دسترس کا خاکہ اس طرح کھینچتے ہیں کہ:
’’مرحوم کم سخن لیکن وسیع النظر تھے ۔اُن کی مثال سمندر کی سی تھی ۔جس کی اوپر کی سطح ساکن لیکن اندر کی سطح موتیوں کے گراں قیمت خزانوں سے معمور ہو تی ہے ۔وہ وسعت نظر ،قوت حافظہ اور کثرت حفظ میں اس عہد میں بے مثال تھے ۔علوم حدیث کے حافظ و نکتہ شناس ،علوم ادب میں بلند پایہ ،معقولات میں ماہر ،شعر و سخن سے بہرہ مند اور زہدو تقویٰ میں کامل تھے ‘‘۔(سلیمان ندوی شذرات ‘‘معارف ۳۲:۱ جولائی ۱۹۳۴ء ،ص ۲،بحوالہ اقبال ؒ کے ممدوح علماء)
ان کی علمی وجاہت کا اعتراف اُن کی وفات پر اقبال ؒ اس طرح کرتے ہیں :
’’اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ‘‘۔(عبدالرشید ارشد بیس بڑے علماء لاہور :مکتبہ رشید یہ ۱۹۷۱ء صفحہ ۳۷۵)
علامہؒ نے کارِ اجتہاد کے لئے اس لئے انور شاہ صاحب کا انتخاب کیا تھا ۔کیونکہ وہ اپنی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے علوم عقلیہ و نقلیہ پر زبردست عبور رکھتے تھے ۔وہ اس عقیدے کے قائل نہیں تھے کہ ہر ایرا غیرا نتھو خیرا اس کام کا متحمل ہو سکتا ہے ۔اجتہاد تو بڑی بات علامہ ؒ سادہ ترجمہ قرآن کے لئے بھی عربی زبان و ادب پر دسترس ہو نے کو لازمی سمجھتے ہیں ۔جو لوگ عربی زبان و ادب سے ناواقف اور قدیم عرب کے علمی سرمایہ سے آشنا ہونے کے بغیر قرآن کی تفسیر کرتے تھے علامہ ؒ کو ان کی اس کوشش سے بہت تکلیف ہوتی تھی ۔اس کا اظہار فقیر وحید الدین اس طرح کرتے ہیں :
’’بعض ایسے لوگ بھی مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں ،جو نہ عربی زبان و ادب میں خاطر خواہ استعداد رکھتے ہیں نہ عربی کے قدیم علمی سرمایہ پر ان کی نگاہ ہے ،نہ قرآن کریم کو ٹھیک طور پر سمجھ سکتے ہیں ،مگر اپنی علمی تہی مائیگی کے باوجود قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کی کوشش فرماتے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کو اس قسم کی باتوں سے بڑی اذیت ہوتی تھی ۔وہ اپنی متانت ،سنجیدگی اور عالی ظرفی کے باوجود اس غم کو چھپانہ سکے ۔ایک بار فرماہی دیا کہ قرآن کریم اس اعتبار سے بڑا ہی مظلوم صحیفہ ہے کہ جسے دنیا میں اور کوئی کام نہیں ملتا وہ اس کے ترجمہ و تفسیر میں مصروف ہو جاتا ہے ۔حالانکہ یہ نہایت ہی نازک اور محتاط ذمہ داری ہے ‘‘(بحوالہ اقبال ایک تجزیہ تصنیف و ترتیب ڈاکٹر بشیر احمد نحوی اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونورسٹی صفحہ ۲۲) ۔
خیر علامہؒ کے نزدیک انحطاط کے زمانے میں ایمان ،اعمال اور اپنا اسلام بچانے کا واحد علاج تقلید اسلاف ہے ۔جب محکوم قوم احسا س کمتری کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ(محکوم قوم )الناس علیٰ دین ملوکھم کے تحت اپنے آقاؤں کی کورانہ تقلید فکر و نظر میں کرنے لگتی ہے ۔ اس طرح صحیح تحقیق و تجسس کا مایہ قوم میں ختم ہو جاتا ہے ۔پھر وہ ذہنی اعتبار سے بانجھ ہو جاتی ہے کہ اپنے مفاد اور غرض کی خاطر بجائے خود بدلنے کے قرآن کے معنی و مفہوم کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے ۔
ہندوستان میں انگریز کے تسلط سے ہی تحقیقات اسلامی کا زوال شروع ہو ا ۔شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ تک ہندستان میں اجتہادی شان موجود تھی لیکن شاہ صاحب کے بعد جب انگریز نے قدم جمائے تو تحقیق و تجدید کی صلاحیت بھی کم ہوتی چلی گئی ۔یہی وجہ ہے کہ بعد میں کچھ روشن خیال لوگ اس طرح قرآن میں اجتہاد کرنے لگے کہ معجزات اور اجتہاد کا تدریجاً انکار ہونے لگا ۔اس قسم کے حالات نے علامہ ؒ کو خاموش رہنے نہیں دیا ۔وہ بول اُٹھے
ہند میں حکمت دین کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذت کردار نہ افکارِ عمیق
حلقہ شوق میں وہ جرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ا ا ن غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتا ب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق
اس تناظر میں پروفیسر سید احمد صدیقی صاحب لکھتے ہیں :
’’کہ انحاط کے زمانے میں قوائے جسمانی و ذہنی دونوں پژ مردہ ہو جاتے ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ اسلاف کے کارنامے اپنی نظروں میں نا قابل رسائی معلوم ہونے لگتے ہیں ۔انسانی فطرت دشواری و اولوالعزمی سے کنارہ کش رہنا چاہتی ہے ۔قوم اور افراد دونوں فاتح کی حیثیت حاصل کرنے کے بجائے فاتحین کی ہم رکابی و ہم نواہی زیادہ پسند کرنے لگتے ہیں ۔اقبالؒ نے اس حالت میں تقلید کو اجتہاد سے بہتر بتایا ہے ۔‘‘(آثار اقبالؒ بحوالہ عرفان اقبال ؒ درحاشیہ ص نمبر ۲۸۸تا ۲۸۹)
گذشتہ سطور سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہئے کہ علامہ اقبال ؒ اجتہاد کا دروازہ بند کر ناچاہتے ہیں ۔نہیں !بلکہ علامہؒ امت میں اجتہادی قوت کے زوال پر ماتم کر رہے ہیں ۔علامہ اقبالؒ کے زمانے میں جن مصلحین نے اجتہاد کی پر زور حمایت کی اور اجتہاد کے فضائل بھی بیان کئے ۔علامہ ان مصلحین کو ایک طرف مبارک باد دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طرح کی کوشش اگر اخلاص اور امت کو پستی سے نکالنے کے لئے شرعی حدود کے اندر کی جائے تو یقیناًاس سے ایک عظیم انقلاب برپا ہو سکتا ہے کیو نکہ اس عالم ایجاد میں اصحاب ایجاد ہی بحیثیت فاتح زندگی گزار سکتے ہیں اور باقی اقوام کو ان کے ارگرد چار و ناچار طواف کر نا ہی ہے ۔لیکن مجھے ڈر ہے کہ مشرق میں جو تجدید و اجتہاد کا غلغلہ اور دھوم ہے یہ صرف تقلید افرنگ کے لئے راستہ ہموار کرنے کا بہانہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارے نام نہاد مجتہدین دین و شریعت میں ایسی رکیک تاویلیں کریں گے جن کی بدولت مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنانے کے لئے راستہ ہموار ہو جائے گا ۔جس کا مشاہدہ آج ہم کھلی آنکھوں سے کر رہے ہیں ۔یہی اندیشہ علامہ اقبالؒ ان الفاظ میں کرتے ہیں
جو عالم ایجا د میں ہے صاحب ایجا د *ہر دورمیں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو *کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
اس قوم کی تجدید کا پیغام مبارک *ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید * مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ (ضرب کلیم) یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ کے نزدیک اپنے اسلاف کے تفقہ اور تدین پر کامل بھروسہ کر کے ان کی شاندار صورت و سیرت کی تقلید مندوب ہے ۔اس تقلید میں امت کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ۔اس کے برعکس علامہ ؒ تقلید فرنگ پر مسلمانوں سے نالا ں ہیں۔وہ مسلمانون کو یورپ کی تقلید کرنے سے عار دلاتے ہیں ۔علامہ کے نزدیک مسلمانوں کے بصیرت سے محروم ہونے کی بنیادی وجہ مغرب کی اندھی تقلید ہے ۔اور اس تقلید کی وجہ سے مسلمان اب کھلی حقیقتوں کو بھی نہیں سمجھ سکتے ہیں ۔وہ اقوام مشرق کو اُن کی کورانہ تقلید سے اپنے آپ کو بچانے کی صلح دیتے ہیں
نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو *آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور
ندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر*یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور(ضرب کلیم)
علامہ اقبال ؒ ان مصلحین سے اس لئے مایوس ہیں کیونکہ یہ لوگ پرانے اور قدیم اسلامی علوم و روایات سے خالی ہیں ۔علامہ اقبالؒ اس ناامیدی کا اظہار ’’مصلحین مشرق‘‘ کے عنوان کے تحت ضرب کلیم میں اس طرح کرتے ہیں
میں ہوں ناامید تیرے ساقیان سامری فن سے
کہ بزم خاوراں میں لے کے آئے سانگیں خالی
نئی بجلی کہاں ان بادلوں کے جیب و دامن میں
پرانی بجلیوں سے بھی ہے جن کی آستین خالی
علامہؒ ان اشعار میں فرماتے ہیں کہ اے اہل مشرق جو تمہاری اصلاح کرنے والے ساقی یا رہبر ہیں ان کے پاس جو صراحیاں اور پیالے ہیں وہ اصلاحی شراب سے خالی ہیں میں ان اصلاح کرنے والے ساقیوں سے ناامید ہوں ۔کیونکہ جن مصلحین کے بادلوں کے دامن اور گریباں پرانی بجلیوں سے خالی ہیں ۔ان میں نئی بجلیاں کہاں سے آئیں گی مراد یہ کہ جو لوگ اپنی قدیم اسلامی روایات ،اقدار، علوم وفنون سے واقف نہیں وہ نئے دور کے علوم و فنون اور اقدار و روایات سے تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکتے ہیں ۔وہ ان سے نقصان تو پہنچا سکتے ہیں فائدہ نہیں ۔علامہ ؒ مغرب کی تقلید سے اس لئے روکتے ہیں کیو نکہ یہ تہذیب نظر و قلب دونوں کے لئے فتنہ ہے ۔اسکی ثقافت اور تمدن کی روح میں حیا اور پاکدامنی نہیں ہے ۔ظاہری اعتبارسے اگر چہ یہ خوب روشن ہوتی ہے لیکن اس کا باطن نا پاک و پلید ہے ۔باطن ہی خراب ہو تو آدمی ضمیر پاک ،خیال بلند اور ذوق لطیف کی اعلیٰ اقدار و صفات سے محروم ہوتاہے ۔علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں
فساد قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب *کہ روح اس مدنیت کی رہ نہ سکی عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید *ضمیر پاک و خیال بلند وذوق لطیف (ضرب کلیم)
حضرت علامہ ؒ بحیثیت مقلد
حضرت علامہ اقبالؒ بڑے پایہ کے محقق تھے ۔اُن کے محقق ہونے کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کے ہم عصر عالم بے بدل حضرت مولانا انور شاہ صاحبؒ (جن کے متعلق علامہ علی مصری حنبلی ؒ نے قیام دارالعلوم دیوبند کے دوران حضرت کے درسوں کو بغور سننے کے بعد جوش میں آکر کہا تھا کہ ’’لو حلفت انہ اعلم من ابی حنیفہ لما حَنِثْتُ‘‘ کہ اگر میں قسم کھا کر یہ کہوں کہ یہ شخص ابو حنیفہ ؒ سے اعلم (زیادہ جاننے والا) ہے تو میں اپنی قسم میں حانث (جھوٹا ) نہیں ہوں ‘‘۔ انہوں نے یہ کہا کہ جتنا استفادہ مجھ سے ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے کسی مولوی نے نہیں کیا ‘‘(بحوالہ ملفوظاتِ محدث کشمیری از مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری صفحہ ۳۰۱)۔اسی طرح اپنی کتاب ضرب الخاتم کے بارے میں جو کہ اقبالؒ نے شاہ صاحب ؒ سے حاصل کی تھی کے متعلق فرمایا کہ ’’میرے نزدیک جو کچھ ضرب الخاتم کو اقبال ؒ سمجھے ہیں اس کو کوئی مولوی نہیں سمجھ سکا ‘‘(بحوالہ مذکورہ بالا کتاب صفحہ نمبر ۳۲۷) خیر یہ تو اقبال ؒ کے دینی علوم میں دسترس کا ثبوت ہے جس کا اب کو ئی انکار نہیں کر سکتا ۔ان کی دنیاوی علوم میں کتنی گہری نظر تھی ۔اس کا اندازہ ہمیں پروفیسر آرنلڈ (جن سے اقبال نے علم فلسفہ میں رہبری حاصل کی تھی ) کے اس جملہ سے ہو سکتا ہے کہ ’’ ایسا شاگرد استاد کو محقق بناتا ہے اور محقق کو محقق تر ‘‘بحوالہ تاریخ ساز جوانیاں ،ص ۱۳۹ از محمد جاوید خالد )۔اس علمی تبحر کے باوجود علامہ ؒ اپنے کومقلد ہی کہتا ہے وہ تقلید کے دائرے سے اس لئے باہر نہیں نکلتا چاہتے ہیں کیونکہ ان کو اسی میں عافیت نظر آرہی ہے ۔انکے اس عقیدے اور موقف کا علم ہمیں علامہؒ کے وصیت نامہ بنام جاوید اقبال کی اس عبارت سے ہو تا ہے ۔لکھتے ہیں :
’’باقی دینی معاملے میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے عقائد میں بعض جزوی مسائل کے سوا جو ارکان دین میں سے نہیں سلف الصالحین کا پیرو ہوں اور یہی راہ بعد کامل تحقیق کے محفوظ معلوم ہوتی ہے ۔جاوید کو میرا یہی مشورہ ہے کہ وہ اسی راہ پر گامزن رہے ۔اور اس بد قسمت ملک ہندستان میں علماء نے جو دینی عقائد کے نئے فرقے مختص کر دئے ہیں ان سے احتراز کرے ۔بعض فرقوں کی طرف سے لوگ محض اس واسطے قائل ہو جاتے ہیں کہ ان فرقوں کے ساتھ تعلق پید ا کر نے سے دنیوی فائدہ ہے ۔میرا خیال ہے کہ بڑا بدبخت ہے وہ انسان جو صحیح دینی عقائد کو مادی منافع کی خاطر قربان کر دے ۔غرض یہ ہے کہ طریقہ حضرات اہل سنت محفوظ ہے اور اسی پر گامزن رہنا چاہئے ۔اور ائمہ اہل بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنی چاہئے ‘‘۔محمد اقبال ۱۷اکتوبر ۱۹۳۵ء بحوالہ (اردو دائجسٹ ہما ۱۹۷۷ء ص ۱۲۹ تا ۱۳۰)
اسی طرح اکتوبر ۱۹۳۵ء میں اقبال ؒ بیمار ہوئے ۔تو انہوں نے ایک وصیت لکھی جس میں مختلف امور کی وصیت کرنے کے بعد ’’مکرر آنکہ ‘‘کے تحت اس طرح رقمطراز ہیں :
’’دیگر میرے مذہبی عقائد سب کو معلوم ہیں ۔میں عقائد میں سلف کا پیرو ہوں ۔نظری اعتبار سے فقہی معاملات میں غیر مقلد ہوں علمی اعتبار سے امام ابو حنیفہ ؒ کا مقلد ہوں‘‘ (نوٹ) نظری اعتبار سے غیر مقلد ہوں کا مطلب یہ ہے کہ اتنا تنگ نظر نہیں ہوں کہ دیگر ائمہ نے جو کچھ لکھا ہے اس کی طرف نہ دیکھوں استفادہ تو کرتا ہوں لیکن مقلدامام ابو حنیفہؒ کا ہوں ۔
علامہ ؒ کو فقہائے اسلام کے تفقہ پر کامل اعتماد تھا ۔وہ صرف اس بات کے قائل نہیں تھے کہ علماء صرف دینی حقائق کو ہی سمجھ سکتے ہیں بلکہ ان کے دل میں یہ بات تحقیق کی بنیاد پر رچ بس چکی تھی کہ علماء اور فقہائے اسلام زندگی کے تمام معالات میں غیر معمولی درک (سمجھ ) رکھتے ہیں ۔علامہ ؒ نے مدیر زمیندار کے نام ایک خط میں لکھا ہے :
’’جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حالات حاضرہ محض ایک سیاسی مفہوم رکھتے ہیں اور پختہ کارانِ سیاست ہی اس کے فیصلہ کے اہل ہیں اور مسند نشینانِ پیغمبر کو ان حالات سے سروکار نہیں ،وہ میری رائے ناقص میں ایک خطر ناک غلطی میں مبتلا ہیں جو حقائق و تاریخ اسلامیہ اور شریعت حقہ کے مقاصد کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے ۔قومی زندگی کی کوئی حالت ایسی نہیں جس پر فقہائے اسلام نے حیرت انگیز چھان بین نہ کی ہو ۔(اقبالؒ اور انجمن حمایت اسلام ص ۱۰۲ بحوالہ اقبال کے ممدوح علماء از قاضی افضل حق قریشی)
یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال ؒ سیاسی معاملات میں بھی علماء کرام کے فیصلوں کے منتظر رہتے تھے ۔ایک موقعہ پر انھوں نے کہا :
ہم مذہب کو تمام چیزوں سے بالا تر سمجھتے ہیں اور علماء کرام کو اپنا حکم سمجھتے ہیں ۔جمعیت علماء ہند جو کچھ فیصلہ کرے گی وہی ہماری رائے ہے ۔(اقبال ؒ اور انجمن حمایت اسلام ص ۹۸ بحوالہ اقبال کے ممدوح علماء)
یہ بات ثابت ہو چکی کہ علامہ فقہی ،علمی اور سیاسی مسائل میں علماء کی دانش پر اپنی رائے رکھنے کے باوجود اعتماد کرتے تھے ۔طریقت کی لائن میں بھی علامہ اپنے آپ کو مقلد اور مرید ہی کہلاتے ہیں۔یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہے کہ علامہ سلسلہ چشتیہ میں مریدتھے ۔اس کے علاوہ ان کو دنیائے اسلام کے ایک مشہور صوفی مولانا رومی ؒ کی باطنی رہبری اور توجہ کے علاوہ ان کی مثنوی سے سوز و گداز کی نعمت حاصل ہوئی تھی فرماتے ہیں
پیررومی را رفیقِ راہ ساز *تا خدا بخشد ترا سوز و گداز
(ترجمہ ) پیر رومی کو اپنا رہبر بنا تا کہ خد اتجھے سوز و گداز سے نوازے ۔
لیکن پیر رومی کی بات سمجھنے میں انہوں نے علماء کی طرف رجوع کیا ۔ایک جگہ خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں کہ :
’’حضرت ! میں نے جلال الدین رومی ؒ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے ۔آپ نے شاید اسے سکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدت الوجود نظر آتا ہے ۔مولوی اشرف علی صاحب تھانوی سے پوچھئے وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں ۔میں اس بارے میں ان ہی کا مقلد ہوں (مقالات اقبال ص ۱۸۰)
اقبال اپنے آپ کو سلفی اس لئے کہتے ہیں کونکہ وہ اپنے متدین اسلاف کی پیروی بغیر کسی دلیل کرتا ہے ۔بقول مولانا ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی زید مجد ھم ’’انسان سلف کی بلا دلیل پیروی سے ہی سلفی بن سکتا ہے ۔اگر کوئی سلفی بننا چاہے تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ اسلاف کی بلادلیل پیروی کرے ،ورنہ وہ سلفی کہاں رہا ‘‘ (ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ اپریل ۲۰۱۲ صفحہ ۳۳)
اس طرح علامہؒ اپنے آپ کو مقلد محض سمجھتے ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک تقلید اہل کمال کی پیروی کا نام ہے وہ جانتے تھے کہ ہمارے اسلاف بھی پہلوں کی تقلید سے ہی آگے چلے ہیں ۔مزید برآں وہ تقلید کو جمود کے معنیٰ میں نہیں بلکہ ربط ملت کے معنی میں سمجھتے تھے
معنی تقلید ضبط ملت است
ربط ملت اس معنی کرکے جب یہ بات تسلیم کی گئی کہ اجتہاد کی ضرورت ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ لوگ اجتہادی شان نہیں رکھتے ہیں ۔جب سارے لوگ اجتہادی شان نہیں رکھتے ہیں تو غیر مجتہدین کو مجتہدین کی پیروی کرنی ہو گی ۔اگر غیر مجتہدین مجتہدین کی پیروی نہیں کریں گے اور خود روی کی راہ اختیار کریں گے تو فساد بر پا ہو گا ۔ہر ایک اپنی رائے پرعمل کرے گا ۔ہر ایک کا مسلک جدا جدا ہو گا ۔اس طرح امت بے ربطی کا شکار ہو گی ۔یہی وجہ ہے کہ علامہؒ تقلیدپر زور دیتے ہیں اور ذات کے اعتبار سے ہمیشہ مقلد رہنا ہی پسند کرتے ہیں۔
شرائط و مدارج اجتہاد
اصطلاح میں تفصیلی اور شرعی دلائل سے احکام شرعیہ کو مستنبط (Extract)کرنے میں کسی فقیہہ کے انتہائی جد وجہد کرنے کے عمل کو اجتہاد کہتے ہیں ۔اجتہاد ایک شرعی عمل ہے اور اسے شریعت کے اصل اور بنیاد ی سر چشمے یعنی قرآن و حدیث کی مدد سے ہی انجام دیا جاتا ہے ۔’’اجتہاد سے نکالے گئے حکم کی نسبت اﷲ کی طرف ہوتی ہے یعنی جس طرح قرآن یا حدیث میں اﷲ کا واضح حکم موجود ہے اسی طرح جن مسائل میں اجتہاد کے ذریعہ بعد تحقیق حکم معلوم کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان مسائل میں یہ اﷲ کا حکم ہے ‘‘ ۱ بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے ۔اﷲ کی جانب کسی حکم کا انتساب کرتے وقت اگر ذرا سی بھی کوتاہی ہو جائے ،یہ اﷲ پر بہتان باندھنا ہوا ۔مجتہد کی خطا کے متعلق جو اکابر مقلدین نسفیؒ ،تفقا زانی ؒ وغیرھم کی کتب میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ ’’المجتہد قد یخطی و یصیب‘‘کہ مجتہد کے اجتہادات ( اصل و فروع میں ) غلط بھی ہوتے ہیں اور صحیح بھی ۔میں تفصیل یہ ہے کہ مجتہد بالقصد یعنی جان بوجھ غلطی نہیں کرتا ہے ۔وہ اپنی تمام صلاحیت کو خرچ کرنے کے بعد دیانتاً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ جو مسئلہ اس نے نکالا ہے وہ اﷲ اور رسول ﷺ کے عین منشا کے مطابق ہے لہٰذا نا معلوم حکم کے بارے میں اﷲ اور سول ﷺ کے منشا کو ڈھونڈنے کے دوران مجتہد کی یہ علمی سعی اﷲ کو بہت پسند ہے ۔اس سعی میں اگر مجتہد کامیاب ہو ا تو اس کو دوگنا ثواب (اجر) ملتا ہے ایک اﷲ کے حکم پر عمل کرنے کا اور ایک اﷲ کے حکم کو تلاش کرنے کی سعی کا ۔اگر ناکام ہو تو سعی ثواب تو بہرحال اﷲ تعالیٰ دیں گے ہی ۔اسی بنیا د پر علماء نے لکھا ہے کہ ’’مجتہد کا اجتہاد صحیح ہے تو دوگنا ثواب اور اگر غلط تو ایک گنا ثواب‘‘۔
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ کار اجتہادایک انتہائی مشکل ، نازک اور حساس عمل ہے ۔ جو عمل جتنا مشکل اور نازک ہوتا ہے اس کے شرائط اتنے مشکل اور نازک ہوتے ہیں۔ اس کام کی حساسیت اور نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے امت کے تمام اکابر علماء نے مجتہد کے لئے درج ذیل صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری ٹھہرایا ہے :
۱:عربی زبان پر عبور رکھتا ہو ۔
۲: قرآن کے معنی اور مفہوم سے خوف واقف ہو ۔
۳:احادیث کا علم رکھتا ہو .
۴: قرآن کے ناسخ اورمنسوخ کا علم رکھتا ہو ۔
۵: اجماع اور اجماعی مسائل کا شناسا ہو۔
۶: قیاس کے آداب و طریقوں سے واقف ہو ۔
۷شرعی نصوص سے احکام حاصل کرنے میں جن امور کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے ان کو جانتا ہو ۔
۸:شریعت کے عمومی اور بنیادی مقاصد و مصالح کا واقف کار ہو۔
مجتہدین کے بھی درجات ہیں ۔جو عالم فقہ کے سارے ابواب میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کو مجتہد مستقل یا مجتہد مطلق کہتے ہیں ۔انگریزی میں مجتہد مستقل کی تعریف یوں بنتی ہے :
"An Absolute Legist formulating independent decisions in legal or theological matters,based on the interpretation and application of the whole usul (i.e)Qran,Sunnah,Ijm'a and Qiyas".
اسی طرح مجتہد مطلق کے بعد مجتہد غیر مطلق یا غیر مستقل کا درجہ آتا ہے ۔اس درجہ پر فائز مجتہد اصول اجتہاد میں کسی مجتہد مطلق کا مقلد ہو تا ہے لیکن مسائل کے استخراج اور استنبا ط میں اسکی پیروی کے بجائے اپنے اجتہاد پر عمل کرتا ہے ۔مجتہد مطلق غیر مستقل کے بعد ’’مجتہد مقید یا تخریج ‘‘ کا درجہ آتا ہے ۔اس درجہ پر فائز مجتہد کسی امام مجتہد (مجتہد مطلق )کے مسلک کے اندر رہ کر اس کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق ہی نئے مسائل کا استنباط و استخراج کرتا ہے ۔مجتہد مقید کے بعد مجتہد ترجیح کا درجہ آتا ہے ۔اس قسم کا مجتہد اپنے مسلک کے مختلف مسائل میں دلیل کے ذریعہ باہم ایک دوسرے پر ترجیح دے کر ترجیح کی علت بیان بیان کرنے پر قادر ہوتا ہے ۔اس کے بعد مجتہد فتویٰ کا درجہ آتا ہے ۔مجتہد فتویٰ وہ مجتہد کہلاتا ہے جو چار مشہور و معروف مسلکوں میں سے ایک مسلک میں مقلد ہو تا ہے اور فتویٰ دیتے وقت زمان ومکان کے مطابق ،تغیریات و مطالبات کو سامنے رکھ کر نہایت ہی بصیرت کے ساتھ فتویٰ دینے پر قادر ہو ۔
اس تما م تر تفصیل کا احاطہ کرنے کا مقصدیہ ہے کہ اقبالؒ نے اپنے عصر میں جن اصحاب کو کار اجتہاد کے لئے اہل قرار دیا تھا کیا واقعی ان میں مذکوہ بالا صلاحیتیں تھیں ،ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یہ دکھاتا ہے کہ اقبال ؒ نے کس قسم کے اجتہاد کے لئے ان کو چنا تھا ۔
جیسا کہ ہم نے اس مقالے کی ابتداء ہی میں مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے حوالے سے لکھا تھا کہ ڈاکٹر صاھب نے فقہ کی جدید تدوین کے لئے حضرت مولاناانور شاہ صاحبؒ کو اپنی بصیرت سے چنا تھا ۔ڈاکٹر صاحب کے پیش نظر جو قومی اور بین اقوامی سیاسی ،معاشی اور سماجی احوال سے تعلق رکھنے والے مسائل تھے ۔جن کا حل ڈھونڈنا ابھی علماء اسلام کے ذمہ باقی تھا ۔ان کا صحیح حل بتانے کی صلاحیت اسی مرد عظیم میں تھی ۔ڈاکٹر صاحب نے پوری وضاحت اور صراحت سے یہ بات سعید صاحب کو گوش گزار کی تھی کہ میری حیثیت صرف ایک مستفتی کی ہو گی اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب کی حیثیت (فقہی اصطلاح میں اگر ہم کہیں تو ) ایک مجتہد فتویٰ کی ہو گی ۔مجتہد فتویٰ زمان و مکان کے تغیرات و مطالبات کو سامنے رکھ کر فتویٰ سازی کاکام کرتا ہے ۔زمانے کے تغیرات و مطالبات اور مسائل کا علم ڈاکٹر صاحب کو کتب بینی اور جہان بینی سے خوب ہو اتھا ۔ڈاکٹر صاحب اپنی اس آگہی کی بنیاد پر استفتیٰ تیار کرتے اورپھر اس استفتیٰ کو مجتہد فتویٰ یعنی مولانا انور شاہ صاحب کے سامنے پیش کرتے وہ قرآن و حدیث اور فقہ مدونہ پر غور و فکر کر کے پیش کئے گئے مسائل کا جواب دے دیتے ۔کیونکہ شاہ صاحب جامع المعقول و منقول شخصیت تھی ۔ہر علم و فن کی امہات کتب کا مطالعہ فرما کر ان کی مشکلات فقہ کا حل فرما چکے تھے ۔ہر علم میں اپنی رائے رکھتے تھے ۔دینی علوم متداولہ کے علاوہ فن طب ،جفر،رمل اور نجوم کے ماہر تھے ۔اس کے علاوہ مصر سے چھپی ہوئی اس زمانے کی جدید سائنسی کتب کا گہرائی سے مطالعہ کرتے تھے ۔
شاہ صاحب ؒ کے علاوہ جس شخص پر اقبال ؒ کو نظر تھی ۔وہ کو ہستانی عالم حضرت مولانا سید جمال الدین افغانی ؒ تھے ۔جن کی مدح میں اقبال ؒ کا یہ شعر ایک سند سے کچھ کم اہمیت نہیں رکھتا ہے
سید السادات مولانا جمال *زدہ از گفتار او سنگ وسفال
اقبال نامہ حصہ دو مصفحہ نمبر ۲۳۱ تا ۲۳۲ بنام چوہدری محمد احسن صاحب میں اقبالؒ اس طرح رقمطراز ہیں :
’’زمانہ حال میں اگر کوئی شخص میرے نزدیک مجدد کہلانے کا مستحق ہے تو وہ صرف جمال الدین افغانی ہے ۔مصر و ایران ،ترکی ،ہند کے مسلمانوں کی تاریخ جب کوئی لکھے گا تو اسے سب سے پہلے عبدالوہاب نجدی اور بعد میں جمال الدین افغانی ؒ کا ذکر کرنا ہو گا ۔ موخرا لذکر اصل میں موسس ہے زمانۂ حال کے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا ‘‘۔
اسی طرح سید جمال الدین افغانی کی شخصیت کچھ اور ہی تھی ۔قدرت کے طریقے عجیب و غریب ہوتے ہیں ۔مذہبی فکر و عمل کے لحاظ سے ہمارے زمانے کا سب سے ترقی یافتہ مسلمان افغانستا ن میں پیدا ہوتا ہے ۔جمال الدین افغانی دنیائے اسلام کی تمام زبانوں سے واقف تھے ۔ان کی فصاحت و بلاغت میں سحر آفرینی ودیعت تھی ۔ان کی بے چین روح ایک ایک اسلامی ملک کا سفر کرتی رہی اور اس نے ایران ،مصر اور ترکی کے ممتاز ترین افراد کو متاثر کیا ہمارے زمانے کے بعض جلیل القدر علماء جیسے مفتی محمد عبدہٗ اور نئی پود کے بعض افراد جو آگے چل کر سیاسی قائد بن گئے جیسے مصر کے زاغلول پاشا وغیرہ انہیں کے شاگردوں میں سے تھے ۔انہوں نے لکھا کم اور کہا بہت اور اس طریقے سے ان تمام لوگوں کو جنہیں ان کا قرب حاصل ہو ا چھوٹے چھوٹے جمال الدین بنا دیا ۔انہوں نے کبھی مجدد یا نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا ۔پھر بھی ہمارے زمانے کے کسی شخص نے روح اسلام میں اس قدر تڑپ پیدا نہیں کی جس قدر کہ انہوں نے کی تھی ۔ان کی روح اب بھی دنیائے اسلام میں سر گرم عمل ہے اور کوئی نہیں جانتا اس کی انتہا کہاں ہو گی ‘‘۔
تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے صفحہ نمبر ۱۵۲ پر ان کا ذکر اس طرح کرتے ہیں :
’’ہمارا فرض ہے کہ ماضی سے اپنا رشتہ توڑے بغیر اسلام پر بحیثیت ایک نظام فکر کے دوبارہ غور کریں ۔بظاہر شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒ نے سب سے پہلے بیداری روح کا احساس دلایا ۔مگر اس کام کی اہمیت کا اندازہ سید جمال الدین افغانی ؒ کو تھا جو اسلام کی ملی حیات اور ذہنی تاریخ پر عمیق نظر رکھنے کے علاوہ انسانی عادات و خصائل کا بے نظیر تجربہ رکھتے تھے ان کی نظر میں بڑی وسعت تھی ‘‘۔
علامہ کی ان اقتباسات سے معلوم ہوا کہ علامہ کے نزدیک جمال الدین افغانی ؒ میں جہاں گوناگوں صلاحیتیں تھیں وہیں درج ذیل صلاحیتیں نمایاں تھیں :
۱:وہ دنیائے اسلام کی تمام زبانوں سے واقف تھے ۔
۲:وہ نہایت فصیح و بلیغ تھے یعنی فصاحت و بلاغت پر ان کو عبور تھا ۔
۳:ملی حیات اور ذہنی تاریخ پر عمیق نظر رکھتے تھے ۔
۴:وہ انسانی خصائل و عادات کا بے نظیر تجربہ رکھتے تھے ۔
چونکہ کار تجدید کے لئے مندر جہ صدر صلاحیتیں مقدمہ کی حیثیت رکھتیں ہیں اور یہ صلاحیتیں افغانیؒ میں تھیں لہٰذا علامہ ؒ نے ان کو کار تجدید کے لئے اہل قرار د یا ۔خیر کار اجتہاد ہو یا تجدید کے لئے غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل ہو نا ضروری ہے یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو کسی ماہر کو ہی دیا جا سکتا ہے ۔جس طرح ایٹمی ہتھیار (Nuclear Weapon) اعلیٰ تربیت یافتہ اذہان رکھنے والے آدمی کے سپرد کئے جاتے ہیں اور کسی عام فوجی کے ہاتھ میں ان ہتھیاروں کو تھما دینا انسانیت کے ساتھ نا انصافی اور ظلم ہو گا ۔اسی طرح کار اجتہاد و تجدید کے لئے اسلامی علوم سے لیس اور عصری مطالبات اور مسائل پر گہری نظر رکھنے والے جید علماء و فقہاء درکار ہیں ۔عام دانشور امت کو اسلامیت کے روپ میں گمراہ بھی کر سکتے ہیں ۔علامہ ؒ کو اس حقیقت کا بخوبی علم تھا ۔
جو علامہ ؒ کی نظروں میں کار اجتہاد و تجدید کی صلاحیت رکھتے تھے
وہ خود اپنی نظروں میں
علامہ ؒ نے جن دو نابغۂ رو ز گار شخصیتوں کو کار اجتہاد کے لئے چنا تھا کیا وہ خود کو اس منصب کے اہل سمجھتے تھے ؟ یہ ایک سوال ہے جسکا جواب شاید ان حضرات کے حق میں مفید ثابت ہو سکتا ہے جو اجتہاد اور تجدید کا بارے میں افراط و تفریط کے شکار ہیں ۔اگر چہ یہ حضرات علوم اجتہاد سے مالال تھے لیکن اس منصب کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ حضرات اس ذمہ داری کو سر لینے سے بہت چُوکتے تھے ۔جس طرح ایک حدیث کی شرح کرنے کے بعد علامہؒ نے حضرت انور شاہ صاحب ؒ کو دنیائے اسلام کا جید ترین محدث وقت کہہ کر اس بات کا اعتراف کیا کہ انور صاحب علوم حدیث میں کمال درجہ رکھتے ہیں اسی طرح جب حضرت علامہ علی مصری ؒ جو صحیحین کے تقریباً حافظ تھے مصر سے سورت اور راندیر آئے ،وہاں حضرت مولانا مفتی سید محمد مہدی صاحب مفتی گجرات سے ملاقات ہوئی اور آپ نے علامہ مصری کو دیوبند جانے کا مشور دیا تو وہ دہلی سے ہوکر دیوبند بھی پہنچے ۔
زمانہ قیام دارالعلوم میں استاتذہ کے درس میں بیٹھے اور خصوصیت سے حضرت شاہ صاحبؒ کے یہاں درس بخاری شریف سنا ۔حضرت شاہ صاحب نے درسی تقریر بھی ان کی رعایت سے عربی میں کی ۔علامہ ؒ نے سوالات کئے حضرت شاہ صاحب ؒ جواب دیتے رہے درس کے بعد فرمانے لگے :
’’میں نے عرب ممالک کا سفر کیا اور علمائے زمانہ سے ملا ......خود مصر میں کئی سال حدیث شریف کا درس دیا ہے ۔میں نے شام سے لے کر ہند تک اس شان کا کوئی محدث و عالم دین نہ دیکھا ۔میں نے ان کو ہر طرح بند کرنے کی سعی کی لیکن ان کے استحضار علوم و تیقظ ،حفظان و ایقان اورذکاوت و وسعت نظر سے حیران رہ گیا ‘‘۔
علامہ ؒ نے دارالعلوم میں تین ہفتے قیام کیا اور حضرت ؒ سے برابر استفادہ کرتے رہے اور ایک دفعہ جوش میں آکر کہا کہ ’’لو حلفت انہٗ اعلم من ابی حنیفہ لما حنثت ‘‘ جب حضرت شاہ صاحبؒ کو یہ جملہ پہنچا تو سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور ارشاد فرمایا ’’ہمیں امام کے مدارج اجتہاد تک قطعاً رسائی نہیں ہے ‘‘
شاہ صاحب کے اس مختصر سے جملے سے ثابت ہو ا کہ حضرت علامہ انور شاہ ؒ کشمیری باوجود اس جلالت علمی کے جس کا اعتراف اس دورکے کبار معاصر علماء نے کیا خود کو ائمہ اجتہاد کے مقابلہ میں پیش نہیں کرتے تھے اور اعتراف کرتے ہیں کہ امام اعظم ؒ جیسا مجتہد مطلق جن اجتہادی مدارج کا حامل تھاان تک انہیں رسائی نہیں ہے ۔
اسی طرح علامہ ؒ کی یہ تحقیق کہ ’’حضرت مولانا جمال الدین افغانی ؒ نے کبھی مجدد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا‘‘ سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ کار تجدید کا کام کرنے کے باوجود بھی افغانی ؒ جیسا مصلح دعویٰ کرنے سے کتراتا ہے خدا ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حضورﷺ کے اس دعا کی دلی کیفیت عطا فرمائے
اللھم اجعلنی فی عینی صغیراً وجعلنی فی اعین الناس کبیرا